Pages

Thursday, 19 January 2012

سماعتوں کے در و بام سجنے لگتے ہیں




عجیب شخص ہے خود فاصلے بچھاتا ہے
جو تھک کے بیٹھوں تو منزل قریب لاتا ہے

عجب اندھیرے اجالے کا باندھتا ہے سماں
وہ ایک شمع جلاتا ہے اِک بجھاتا ہے

تماشا دیکھے کوئی، اس کی غمگساری کا
سنا کے دوسروں کے دکھ، مجھے رلاتا ہے

سماعتوں کے در و بام سجنے لگتے ہیں
وہ بولتا نہیں ، تصویر سی بناتا ہے

وہی تو ہے، پسِ منظر بھی پیشِ منظر بھی
وہ سارے منظروں کو معتبر بناتا ہے

قریب آئے تو کہیے بھی، کیا ہے، کیسا ہے
ابھی جو دور ستارہ سا جگمگاتا ہے

وہ ویسا ہے نہیں ، جو دیکھنے میں لگتا ہے
اسے یہی تو تماشا دکھانا آتا ہے

فریبِ عکس کی تاویل کیجیے کس سے
جہاں ہر ایک مجھے آئنہ دکھاتا ہے

کسی کے کوزے میں سمٹے ملیں سمندر سات
کوئی سراب ہی سے تشنگی مٹاتا ہے

میں گزرے وقت کی تصویر ساتھ رکھتا ہوں
کہ اپنا چہرہ مجھے بھول بھول جاتا ہے


No comments:

Post a Comment