Pages

Monday, 2 April 2012

یہ کیسا عشق میں ڈوبا ہوا کردار ہے صاحب




یہ کیسا عشق میں ڈوبا ہوا کردار ہے صاحب
 
ابھی تک اس کی جھولی میں وہی پندار ہے صاحب
 
دَبک کر اتنے سارے غم یہاں خاموش بیٹھے ہیں
 
یہ دل ہے یا کسی صوفی کا اک دربار ہے صاحب 
میں تیری شرط پہ سب جنگلوں کو پار کر آئی
 
بتا! اب میرے حصے کا کدِھر گلزار ہے صاحب
 
یہی محسوس ہوتا ہے بہت سے پچھلے برسوں سے
 
کہ آنے والا جو بھی ہے برس بیکار ہے صاحب
 
وہ مجھ ایسی، کہ میری زندگی چڑیا کے جیسی ہے
 
شجر کی شاخ پہ دونوں کا ہی گھر بار ہے صاحب
 
بہت سے راز سینے میں رہیں مضمر تو بہتر ہے
 
نہیں تو کیا ہے، رسوائی ہے، ہاہاکار ہے صاحب
 
کسی دن ہاتھ اس سے پھر ملانا ہو گا رخشندہ
 
کہ پھر سے دھڑکنوں کی سُست سی رفتار ہے صاحب

No comments:

Post a Comment