Pages

Monday, 2 April 2012

وہ دلبر ہیں تو گویا دلبری کرنی پڑے گی



وہ دلبر ہیں تو گویا دلبری کرنی پڑے گی
انہیں کے نام دل کی ڈائری کرنی پڑے گی 


وہ اُن کو جانتے ہیں اور اُن کے حال دل کو
سو ان کے دوستوں سے دوستی کرنی پڑے گی 


ہمارے درمیاں یہ دُکھ ہی قدر مشترک ہیں
سو ہم کو اجتماعی خودکشی کرنی پڑے گی 


بدن کو روح سے محروم کر ڈالا گیا ہے
بسر اس طور ہی اب زندگی کرنی پڑے گی 


بلایا جائے کیسے اس شناسائے سخن کو 
[
بپا اک بزمِ شعروشاعری کرنی پڑے گی 

نگاہوں کے سفر میں تُو اگر دریا ہے مجھ کو
ادا نہ جان و دل کی تشنگی کرنی پڑے گی 


No comments:

Post a Comment