Pages

Wednesday, 18 April 2012

وہ شام ذرا سی گہری تھی




ان ہجر زدہ اور رنجیدہ
آنکھوں سے ذرا نیچے جھُک کر
تری یا د میں بھیگے رخساروں کے
زرد کناروں پر آ کر
گھبرائی ہوئی سی اُتری تھی
اور تھوڑی دیر کو ٹھہری تھی
اب یا د نہیں تری آنکھوں میں
کوئی خواب تھا ۔۔۔ کوئی ستارہ تھا
ترے ہونٹوں کی ان قوسوں پر
کوئی لفظ تھا ۔۔۔ کوئی اشارہ تھا
کیا شام کے رستے پر رُک کر
ترے دل نے مجھے پکارا تھا؟
بس یاد ہے اتنا جب دل نے
اس عمر کی حد سے کچھ پیچھے
اک بار پلٹ کر دیکھا تھا
رستوں پہ کھلے سب پھولوں پر
اک ابر کا سایا جھکتا تھا
اور شام ذرا سی گہری تھی

No comments:

Post a Comment