Pages

Sunday, 15 July 2012

عذاب دید میں آنکھیں لہو لہو کر کے


عذاب دید میں آنکھیں لہو لہو کر کے
میں شرمسار ہوا تیری جستجو کر کے
کھنڈر کی تہ سے بریدہ بدن سروں کے سوا
ملا نہ کچھ بھی خزانوں کی آرزو کر کے
سنا ھے شہر میں زخمی دلوں کا میلہ ھے
چلیں ہم بھی مگر پیرہن رفو کر کے
مسافت شب ہجراں کے بعد بھید کھلا
ہوا دکھی ھے چراغوں کو بے آبرو کر کے
زمیں کی پیاس اسی کے لہو کو چاٹ گئی
وہ خوش ہوا تھا سمندر کو آب جو کر کے
یہ کس نے ہم سے لہو کا خراج پھر مانگا
ابھی تو سوئے تھے مقتل کو سرخرو کر کے
جلوس اہل وفا کس کے در پہ پہنچا ھے
نشان طوق وفا زینت گلو کر کے
اجاڑ رت کو گلابی بنائے رکھتی ھے
ہماری آنکھ تیری دید سے وضو کر کے
کوئی تو حبس ہوا سے یہ پوچھتا"محسن"
ملا ہے کیا اسے کلیوں کو بے نمو کر کے


No comments:

Post a Comment