Pages

Sunday, 15 July 2012

یہ درد کم تو نھیں کہ تو ھمیں نہ ملا



بجز ہوا کوئی جانے نہ سلسلے تیرے
میں اجنبی ھوں کروں کس سے تذکرے تیرے
یہ کیسا قرب کا موسم ھے اے نگار چمن
ھوا میں رنگ نہ خوشبو میں ذائقے تیرے
میں ٹھیک سے تیری چاہت تجھے جتا نہ سکا
کہ میری راہ میں حائل تھے مسئلے تیرے
کہاں سے لاؤں تیرا عکس اپنی آنکھوں میں
یہ لوگ دیکھنے آتے ھیں آئینے تیرے
گلوں کو زخم ستاروں کو اپنے اشک کہوں
سناؤں خود کو تیرے بعد تبصرے تیرے
یہ درد کم تو نھیں کہ تو ھمیں نہ ملا
یہ اور بات کہ ھم بھی نہ ھو سکے تیرے
جدائیوں کا تصور رلا گیا تجھ کو
چراغ شام سے پہلے ھی بجھ گئے تیرے
ہزار نیند جلاؤں تیرے بغیر مگر
میں خواب میں بھی نہ دیکھوں وہ رتجگے تیرے
ھوائے موسم گل کی ھیں لوریاں جیسے
بکھر گئے ھوں فضاؤں میں قہقہے تیرے
کسے خبر کہ ھمیں اب بھی یاد ھیں"محسن"
وہ کروٹیں شب غم کی وہ حوصلے تیرے

No comments:

Post a Comment