Pages

Wednesday, 22 August 2012

یہ اہل ہجر کی بستی ھے احتیاط سے چل


در قفس سے پرے جب صبا گزرتی ھے
کسے خبرکہ اسیروں پہ کیا گزرتی ھے

تعلقات کبھی اس قدر نہ ٹوٹے تھے
کہ تیری یاد بھی دل سے خفا گزرتی ھے

وہ اب ملے بھی تو ملتا ھے اس طرح جیسے
بجھے چراغ کو چھو کر ہوا گزرتی ھے

فقیر کب کے گئے جنگلوں کی سمت مگر
گلی سے آج بھی ان کی صدا گزرتی ھے

یہ اہل ہجر کی بستی ھے احتیاط سے چل
مصیبتوں کی یہاں انتہا گزرتی ھے

نہ پوچھ اپنی انا کی بغاوتیں"محسن"
در قبول سے بچ کر دعا گزرتی ھے


No comments:

Post a Comment