Pages

Wednesday, 22 August 2012

گزر رھی ھیں گلی سے پھر ماتمی ہوائیں



کوئی نئی چوٹ پھر سے کھاؤ اداس لوگو
کہا تھا کس نے کہ مسکراؤ اداس لوگو

گزر رھی ھیں گلی سے پھر ماتمی ہوائیں
کواڑ کھولو،دیے بجھاؤ اداس لوگو

جو رات مقتل میں بال کھولے اتر رھی تھی
وہ رات کیسی رھی،سناؤ اداس لوگو

کہاں تلک بام و در چراغاں کیے رکھو گے
بچھڑنے والوں کو بھول جاؤ اداس لوگو

اجاڑ جنگل،ڈری فضا،ہانپتی ہوائیں
یہیں کہیں بستیاں بساؤ اداس لوگو

یہ کس نے سہمی ھوئی فضا میں ہمیں پکارا
یہ کس نے آواز دی کہ آؤ اداس لوگو

یہ جاں گنوانے کی رت یونہی رائیگاں نہ جائے
سر سناں کوئی سر سجاؤ اداس لوگو

اس کی باتوں سے ھی طبیعت سنبھل سکے گی
کہیں سے"محسن" کو ڈھونڈ لاؤ اداس لوگو


No comments:

Post a Comment