Pages

Tuesday, 28 August 2012

اب بھی نوحے ہیں جدائی کے وہی ماتم ہے


جانے یہ کیسی تیرے ہجر میں ٹھانی دل نے 
پھر کسی اور کی کچھ بات نہ مانی دل نے 

ایک وحشت سے کسی دوسری وحشت کی طرف 
اب کے پھر کی ہے کوئی نقل مکانی دل نے 

اب بھی نوحے ہیں جدائی کے وہی ماتم ہے 
ترک کب کی ہے کوئی رسم پرانی دل نے 

بات بے بات جو بھر آتی ہیں آنکھیں اپنی 
یاد رکھی ہے کسی دکھ کی کہانی دل نے 

ڈوبتی شام کے ویران سمے کی صورت 
تھام رکھی ہے تیری ایک نشانی دل نے


No comments:

Post a Comment