Pages

Thursday, 20 September 2012

میں جی رہا ہوں تجھے ہاتھ سے گنوا کر بھی


میں سخت جان تھا اس کرب سے بھی بچ نکلا
میں جی رہا ہوں تجھے ہاتھ سے گنوا کر بھی

خُدا کرے تجھے دُوری ہی راس آجائے
تو کیا کرے گا بھلا اب یہاں پہ آکر بھی

ابھی تو میرے بکھرنے کا کھیل باقی ہے
میں خوش نہیں ہوں ابھی اپنا گھر لُٹا کر بھی



ابھی تک اُس نے کوئی بھی تو فیصلہ نہ کیا
وہ چُپ ہے مجھ کو ہر اک طرح آزما کر بھی

اسی ہجوم میں لڑ بھڑ کے زندگی کر لو
رہا نہ جائے گا دنیا سے دور جا کر بھی

کھلا یہ بھید کہ تنہائیاں ہی قسمت ہیں
اک عمر دیکھ لیا محفلیں سجا کر بھی

رُکا نہ ظلم مرے راکھ بننے پر بھی ریاض
ہوا کی خو تو وہی ہے مجھے جلا کر بھی

No comments:

Post a Comment