Pages

Friday, 14 September 2012

اکیلے پن کی اذیتوں کو شمار کرنا بھی سیکھ لو گے


اکیلے پن کی اذیتوں کو شمار کرنا بھی سیکھ لو گے

کرو گے الفت تو روز جینا یہ روز مرنا بھی سیکھ لو گے

کوئی ارادہ ابھی تخیل میں پھول بن کے مہک رہا ہے

جب آسماں نے مزاج بدلا تو پھر بکھرنا بھی سیکھ لو گے

محبتوں کے یہ سارے رستے ہی سہل لگتے ہیں ابتدا میں

تم آج چل تو رہے ہو لیکن کہیں ٹھہرنا بھی سیکھ لو گے

کسی خلش سے فریب کھا کر تم اپنے جیون کے راستوں سے

نظر بدلتی ہوئی رتوں کی طرح گزرنا بھی سیکھ لو گے

خمارِ قربت کے خود فراموش موسموں میں یونہی اچانک

تم اپنی ہستی کی جان پہچان سے مکرنا بھی سیکھ لو گے

یہ وصل کا بے ثبات موسم جدائیوں کو صدائیں دے گا

حسن ذرا دیر زندہ رہنے کے بعد مرنا بھی سیکھ لو گے


No comments:

Post a Comment