Pages

Friday, 21 September 2012

جاناں! مَیں تمہاری ہر خواہش پوری کروں گا




مجھے بس اِتنا یاد ہے 

جب میں نے کہا تھا

جاناں 

میں تمہاری ہر خواہش پوری کروں گا

خواہ وہ کیسی بھی ہو ؟

یہ سُن کر اُس نے میرا ہاتھ تھام لیا تھا

اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی

میرے ہاتھ پر دو نیم گرم قطرے گرے تھے

وہ میرے سینے سے لگ کر بولی تھی

مَیں جانتی ہوں ۔

تم مجھ سے بہت محبت کرتے ھو نا 

بھلے وہ دیکھ نہ پائی تھی مگر

آنکھیں تو میری بھی بھر آئیں تھیں

مگر یہ آج کیا ہو گیا ہے ؟

کہ ہمیں ترکِ تعلق نے آ گھیرا ہے

وہ کہتی ہے 

تم مجھے بھول کیوں نہیں جاتے

میں کہتا ہوں

بھول کر بھی تمہیں بھول نہیں سکتا

وہ کہتی ہے

تم خود ہی تو کہا کرتے ھو

جاناں

مَیں تمہاری ہر خواہش پوری کروں گا

خواہ وہ کیسی بھی ہو ۔ ۔



No comments:

Post a Comment