Pages

Friday, 21 September 2012

دل میں اب یوں ترے بھولے ہوئے غم آتے ہیں


دل میں اب یوں ترے بھولے ہوئے غم آتے ہیں
جیسے بچھڑے ہوئے کعبے میں صنم آتے ہیں

ایک اک کرکے ہوئے جاتے ہیں تارے روشن
میری منزل کی طرف تیرے قدم آتے ہیں

رقصِ مے تیز کرو ، ساز کی لے تیز کرو
سوئے مے خانہ سفیرانِ حرم آتے ہیں

کچھ ہمیں کو نہیں احسان اُٹھانے کا دماغ
وہ تو جب آتے ہیں ، مائل بہ کرم آتے ہیں

اور کچھ دیر نہ گزرے شبِ فرقت سے کہو
دل بھی کم دُکھتا ہے، وہ یاد بھی کم آتے ہیں

No comments:

Post a Comment