واقف نہیں تم اپنی نگاہوں کے اثر سے
اس راز کو پوچھو کسی برباد نظر سے
اک اشک نکل آیا ہے یوں دیدہ تر سے
جس طرح جنازہ کوئی نکلے بھرے گھر سے
رگ رگ میں عوض خون کے مے دوڑ رہی ہے
وہ دیکھ رہے ہیں مجھے مخمور نظر سے
اس طرح بسر ہوتے ہیں دن رات ہمارے
اک تازہ بلا آئی جو اک ٹل گئی سر سے
صحرا کو بہت ناز ہے ویرانی پہ اپنی
واقف نہیں شاید مرے اُجڑے ہوئے گھر سے
مِل جائیں ابد سے مرے اللہ یہ لمحے!
وہ دیکھ رہے ہیں مجھے مانوس نظر سے
جائیں تو کہاں جائیں کھڑے سوچ رہے ہیں
اُٹھنے کو خمار اُٹھ تو گئے ہم کسی در سے
No comments:
Post a Comment