Pages

Friday, 21 September 2012

واقف نہیں تم اپنی نگاہوں کے اثر سے



واقف نہیں تم اپنی نگاہوں کے اثر سے
اس راز کو پوچھو کسی برباد نظر سے

اک اشک نکل آیا ہے یوں دیدہ تر سے
جس طرح جنازہ کوئی نکلے بھرے گھر سے

رگ رگ میں عوض خون کے مے دوڑ رہی ہے
وہ دیکھ رہے ہیں مجھے مخمور نظر سے

اس طرح بسر ہوتے ہیں دن رات ہمارے
اک تازہ بلا آئی جو اک ٹل گئی سر سے

صحرا کو بہت ناز ہے ویرانی پہ اپنی
واقف نہیں شاید مرے اُجڑے ہوئے گھر سے

مِل جائیں ابد سے مرے اللہ یہ لمحے!
وہ دیکھ رہے ہیں مجھے مانوس نظر سے

جائیں تو کہاں جائیں کھڑے سوچ رہے ہیں
اُٹھنے کو خمار اُٹھ تو گئے ہم کسی در سے

No comments:

Post a Comment