Pages

Tuesday, 18 September 2012

وصل کا خواب دکھائے گا ٹھہر جائے گا



وصل کا خواب دکھائے گا ٹھہر جائے گا
موسم ِہجر اب آئے گا، ٹھہر جائے گا

باتوں باتوں میں کوئی نام اچانک آ کر
دل میں ہلچل سی مچائے گا، ٹھہر جائے گا

شہر ِانجان میں جانا ہے اگر، یاد رہے
جو بھی اُس سمت کو جائے گا، ٹھہر جائے گا

یہی ہونا ہے بہر طور، سبھی جانتے ہیں
آسماں دھرتی پہ آئے گا، ٹھہر جائے گا

عشق اک درد کی دولت کے سوا کچھ بھی نہیں
دل جب اس درد کو پائے گا، ٹھہر جائے گا

ہم نے جب چاند کو دیکھا تھا تو سوچا تھا بتول
کچّے آنگن کو سجائے گا، ٹھہر جائے گ

No comments:

Post a Comment