Pages

Thursday, 27 September 2012

درد بھول جاتے ہیں، اب بھی تیری آہٹ پر



درد بھول جاتے ہیں، اب بھی تیری آہٹ پر 

شبنمی ستاروں میں پھول کھلنے لگتے ہیں 


چاند مسکراتے ہیں، اب بھی تیری آہٹ پر 
عمر کاٹ دی لیکن بچپنا نہیں جاتا 


ہم دیے جلاتے ہیں ، اب بھی تیری آہٹ پر 
گھنٹیاں سی بجتی ہیں رقص ہونے لگتا ہے 


درد جگمگاتے ہیں، اب بھی تیری آہٹ پر 
تیری یاد آئے تو نیند جاتی رہتی ہے 


خواب ٹوٹ جاتے ہیں ، اب بھی تیری آہٹ پر 
جو ستم کرے آکر سب قبول ہے دل کو 


ہم خوشی مناتے ہیں، اب بھی تیری آہٹ پر 
اب بھی تیری آہٹ پر چاند مسکراتا ہے 


خواب گنگناتے ہیں ، اب بھی تیری آہٹ پر 
تیرے ہجر میں ہم پر اک عذاب طاری ہے 


چونک چونک جاتے ہیں ، اب بھی تیری آہٹ پر 
دستکیں سجانے کے منظر نہیں رہتے 


راستے سجاتے ہیں ، اب بھی تیری آہٹ پر 
اب بھی تیری آہٹ پر آس لوٹ آتی ہے 


ہم دیے جلاتے ہیں ، اب بھی تیری آہٹ پر

No comments:

Post a Comment