صُراحی جام سے ٹکرائیے برسات کے دن ہیں
حدیثِ زندگی دُہرائیے برسات کے دن ہیں
سفینہ لے چلا ہے کس مخالف سمت کو ظالم
ذرا ملاح کو سمجھائیے برسات کے دن ہیں
کِسی پُر نُور تہمت کی ضرورت ہے گھٹاؤں کو
کہیں سے مہ و شوق کو لائیے برسات کے دن ہیں
طبعیت گردشِ دوراں کی گھبرائی ہوئی سی ہے
پریشاں زُلف کو سُلجھائیے برسات کے دن ہیں
ان دِنوں دشتِ بیاباں میں بھی آتی ہیں
فقیروں پر کرم فرمائیے برسات کے دن ہیں
موسم شورشِ جذبات کا مخصوص موسم ہے
دلِ نادان کو بہلائیے برسات کے دن ہیں
سُہانے آنچلوں کے ساز پر اَشعار ساغرکے
کِسی بے چین دُھن میں گائیے برسات کے دن ہیں
No comments:
Post a Comment