جس قدر حکمت عملی تھی الٹ کر آیا
درس اجڑے ھوئے رستوں پہ پلٹ کے آیا
زرد چہرے پہ ذرا سرخی نہ تھی حالانکہ
ایک اک قطرہ مرے خوں کا سمٹ کر آیا
تم ابھی ٹھہرو مسرت بھرے پل کی یادو
میں ذرا اپنی اداسی سے نمٹ کر آیا
میری خواھش تھی کہ ھو تجھ سے برابر کا سلوک
تو ہمیشہ ہی مقابل مرے گھٹ کر آیا
میں نے دیکھا ہی نہیں چاند مکمل فرحت
میری دیوار پہ آیا بھی تو بٹ کر آیا
No comments:
Post a Comment