دل ونظر کی عبادتیں ھوں تو آنسوؤں کو امام کرنا
سمندروں کے سفر میں لازم ھے پانیوں سے کلام کرنا
جو سجدہ گاہیں تلاش کرنے لگے تو عمریں گذار دو گے
خود اپنے سائے کی صف بچھانا وھیں سجود و قیام کرنا
میں کارواں سے بچھڑ کر اندھی مسافتوں کے عذاب میں ھوں
مرا بھی اے ساربان شمس و قمر کوئی انتظام کرنا
جہاں دل میں جو روشنی ھے وہ تیرا حصہ وہ تیرا قصہ
جو ظلمتیں ھیں ملامتیں ھیں وہ سب کی سب میرے نام کرنا
یہ تازہ لفظوں کے سارے گلدستے سوکھ جائیں گے جب وہ آئے
تم ان کی آمد پہ احتیاطا کچھ اور بھی انتظام کرنا
رشید اپنے لئے تو ھوتا ھے جشن کا اک سماں ھمیشہ
کسی بھی مہماں کا ھم فقیروں کے دل میں رکنا قیام کرنا
No comments:
Post a Comment