Pages

Friday, 19 October 2012

کوئی پھول جیسی تتلی نہ ستارے جیسا جگنو



مجھے حوصلہ تو دیتے جو مرے شریک غم ھیں
میں بھگت رھا ھوں ننہا جو عذاب بیش و کم ھیں

کوئی پھول جیسی تتلی نہ ستارے جیسا جگنو
تیرے بعد بس اندھیر
ے سر باغ ہم قدم ھیں

مجھے چھوڑنے سے پہلے یہ جتا دیا تھا اس نے
یہ کٹھن رہ سفر ھے کئی اس میں پیچ و خم ھیں

جو بچا رھے ھیں شمعوں کو ہوا کی دسترس سے
وہی لوگ ھیں معزز وہی شہر محترم ھیں

مرا کمرہ بارشوں میں کبھی بھیگتا نہیں ھے
مری ادھ کھلی بیاضیں مرے آنسوؤں سے نم ھیں

جسے چاھنے کے غم سے مری الجھنیں بڑھی ھیں
وہی مجھ سے پوچھتا ھے تمہیں اور کتنے غم ھیں

No comments:

Post a Comment