قہقہوں کے تیر برسائے تو گھائل میں بھی تھا
اشک جب وہ بانٹنے نکلا تو سائل میں بھی تھا
رات بھر لڑتا رھا ھوں باغیوں کی فوج سے
صبح دم دیکھا تو خود اپنے مقابل میںبھی تھا
کفر تھا سورج جہاں اور روشنی مصلوب تھی
اس جہان سرد میں اک برف کی سل میں بھی تھا
وہ بھی تھا دشمن مرا ، مجرم مرا ، قاتل مرا
اپنا دشمن ، اپنا مجرم ، اپنا قاتل میں بھی تھا
چاند پر اپنی سیاھی پھینکنا پھر ناچنا
جشن اندھی رات کا تھا اور شامل میں بھی تھا
حبس اتنا تھا کہ دی وحشی ھواؤں کو صدا
پھر وھاں زخمی شجر تھے اور گھائل میں بھی تھا
کیسے ھوتیں پھر بیاض دل کی تفسیریں رشید
وہ بھی لب بستہ تھا اور کچھ حرف مشکل میں بھی تھا
No comments:
Post a Comment