Pages

Wednesday, 17 October 2012

اشک جب وہ بانٹنے نکلا تو سائل میں بھی تھا


قہقہوں کے تیر برسائے تو گھائل میں بھی تھا
اشک جب وہ بانٹنے نکلا تو سائل میں بھی تھا

رات بھر لڑتا رھا ھوں باغیوں کی فوج سے
صبح دم دیکھا تو خود اپنے مقابل میں‌بھی تھا

کفر تھا سورج جہاں اور روشنی مصلوب تھی
اس جہان سرد میں اک برف کی سل میں بھی تھا

وہ بھی تھا دشمن مرا ، مجرم مرا ، قاتل مرا
اپنا دشمن ، اپنا مجرم ، اپنا قاتل میں بھی تھا

چاند پر اپنی سیاھی پھینکنا پھر ناچنا 
جشن اندھی رات کا تھا اور شامل میں بھی تھا

حبس اتنا تھا کہ دی وحشی ھواؤں کو صدا 
پھر وھاں زخمی شجر تھے اور گھائل میں بھی تھا

کیسے ھوتیں پھر بیاض دل کی تفسیریں رشید
وہ بھی لب بستہ تھا اور کچھ حرف مشکل میں بھی تھا


No comments:

Post a Comment