Pages

Wednesday, 17 October 2012

سخن کدے میں کسے پا کے میں نے کھویا تھا


سخن کدے میں کسے پا کے میں نے کھویا تھا
کہ لفظ لفظ زباں سے لپٹ کے رویا تھا

بیاضِ جاں مری ترتیب دینے والے نے
ھر ایک حرف میں چہرہ ترا سمویا تھا

میں ایک ابر تھا لیکن ھوا کی قید میں تھا
یہی بہت ھے کہ آنچل تیرا بھگویا تھا

تری تلاش میں جو اک ستارہ رھتا تھا 
وھی تو میری ھتھیلی پہ تھک کے سویا تھا

تمام گل تھے اسی کے وہ 
گل بہ گل مہکا

مگر وہ کانٹا جو اس نے مجھےچبھویا تھا

وہ دشت اور وہ دریا کسے خبر ھے رشید
وہ مجھ میں‌ڈوب گیا یا مجھے ڈبویا تھا


No comments:

Post a Comment