Pages

Saturday, 13 October 2012

بکھر جانے سے پہلے ہی سنبھل کر دیکھ لیتے ہیں



بکھر جانے سے پہلے ہی سنبھل کر دیکھ لیتے ہیں
چلو ہم بھی ہوا کی سمت چل کر دیکھ لیتے ہیں

کسے معلوم اقرارِ محبت رنگ بدلے گا
ابھی دل کو تیرے دل سے بدل کر دیکھ لیتے ہیں

جہاں میں منتظر ہیں اور بھی غم ذات سے بڑھ کر
حصارِ ذات سے باہر نکل کر دیکھ لیتے ہیں

چھلک جاتے ہیں اب غم بھی تمنا بن کے آنکھوں سے
کہ اس دریا کو بھی اندر نگل کر دیکھ لیتے ہیں

ہوائے دشت سے کہنا ہماری سمت آ جائے
فراقِ ذات میں دونوں ہی جل کر دیکھ لیتے ہیں

تمہیں سوچیں تمہیں دیکھیں تمہیں چاہیں تمہیں مانگیں
تمہیں پانے کی خواہش میں مچل کر دیکھ لیتے ہیں

اگر جلنے کی خواہش ہے تو پروانے بنو تم بھی
مثال شمع پھر ہم بھی پگھل کر دیکھ لیتے ہیں

مزا کچھ اور ملتا ہے تبسم اِن شراروں میں
چلو اک بار ساون میں نکل کر دیکھ لیتے ہیں

No comments:

Post a Comment