Pages

Sunday, 11 November 2012

روئیں گی بہت مجھ سے بچھڑ کر تیری آنکھیں



بھڑکائیں میری پیاس کو اکثر تیری آنکھیں
صحرا میرا چہرہ ھے سمندر تیری آنکھیں
پھر کون بھلا داد تبسم انہیں دے گا
روئیں گی بہت مجھ سے بچھڑ کر تیری آنکھیں
خالی جو ہوئی شام غریباں کی ہتھیلی
کیا کیا نہ لٹاتی رہیں گوھر تیری آنکھیں
بوجھل نظر آتی ہیں بظاھر مجھے لیکن
کھلتی ھیں بہت دل میں اتر کر تیری آنکھیں
اب تک میری یادوں سے مٹائے نھیں مٹتا
بھیگی ھوئی اک شام کا منظر تیری آنکھیں
ممکن ھو تو اک تازہ غزل اور بھی کہہ لوں
پھر اوڑھ نہ لیں خواب کی چادر تیری آنکھیں
میں سنگ صفت ایک ہی رستے میں کھڑا ھوں
شاید مجھے دیکھیں گی پلٹ کر تیری آنکھیں
یوں دیکھتے رہنا اسے اچھا نہیں"محسن"
وہ کانچ کا پیکر ھے تو پتھر تیری آنکھیں

No comments:

Post a Comment