Pages

Sunday, 11 November 2012

وہ بھی کیا دن تھے کہ پل میں کر دیا کرتے تھے ہم



وہ بھی کیا دن تھے کہ پل میں کر دیا کرتے تھے ہم
عمر بھر کی چاھتیں ہر ایک ھرجائی کے نام

وہ بھی کیا موسم تھے جن کی نکہتوں کے ذائقے
لکھ دیا کرتے تھے خال و خد کی رعنائی کے نام

وہ بھی صحبتیں تھیں جن کی مسکراھٹ کے فسوں
وقف تھے اہل وفا کی بزم آرائی کے نام

وہ بھی کیا شامیں تھیں جن کی شہرتیں منسوب تھیں
بے سبب کھلے ھوئے بالوں کی رسوائی کے نام

اب کے وہ رت ھے کہ ہر تازہ قیامت کا عذاب
اپنے جاگتے زخموں کی گہرائی کے نام

اب کے اپنے آنسوؤں کے سب شکستہ آئینے
کچھ زمانے کے لیے،کچھ تنہائی کے نام

No comments:

Post a Comment