Pages

Tuesday, 27 November 2012

کہیں تو ختم بھی کر دے سفر اذیّت کا


مِرے وجود کے صحرا سے پار کر مُجھ کو
ہوائے وقت کی شدّت! غبار کر مُجھ کو

میں اُس کو ڈھونڈ رہا ہوں طویل مدّت سے
وہ چھُپ گیا ہے کہیں تو پکار کر مُجھ کو

تمہاری زُلف سنواری ہے زندگی میں نے
تُو محسنوں میں کبھی تو شمار کر مُجھ کو

میں تیز گام ہوا ہوں زمانے دیکھ مجھے
تُو اپنے دوش پہ اب تو سوار کر مُجھ کو

کہیں تو ختم بھی کر دے سفر اذیّت کا
کہیں تو پھینک مِرے یار! مار کر مُجھ کو


No comments:

Post a Comment