Pages

Tuesday, 27 November 2012

راستہ دیکھا کیے، پر وہ نہ آیا شب بھر


راستہ دیکھا کیے، پر وہ نہ آیا شب بھر
اس کی یادوں نے ہمیں خوب جگایا شب بھر

ہم پہ غالب تھی تھکن دن کی مگر سو نہ سکے
جانے کیا بات تھی یوں جس نے ستایا شب بھر

جس کو آنا ہی نہ تھا اس کے لئے کیوں ہم نے
دن بھی برباد کیا، گھر بھی سجایا شب بھر

کیا کہیں اس کو کہ تصویر سے اس کی کل رات
حال ِدل ہم نے کہا، دکھ بھی سنایا شب بھر

اس کو معلوم ہیں سب راز کی باتیں تو میاں
پالنے والے نے کیوں کھیل رچایا شب بھر

میں اسے چھو تو نہ سکتا تھا مگر میں نے عدیل
دل میں خوشبو کی طرح اس کو بسایا شب بھر


No comments:

Post a Comment