Pages

Monday, 26 November 2012

ایسی سُونی تو کبھی شام ِغریباں بھی نہ تھی


غم ِدوراں نے بھی سیکھے غم ِجاناں کے چلن
وہی سوچی ہوئی چالیں وہی بے ساختہ پن


وہی اقرار میں انکار کے لاکھوں پہلو
وہی ہونٹوں پہ تبسّم وہی آبرو پہ شکن

کس کو دیکھا ہے 
کہ پندار ِنظر کے با وصف

ایک لمحے کے لئے رک گئی دل کی دھڑکن

کون سی فصل میں اس بار ملے ہیں تجھ سے
ہم کو پرواہِ گریباں ہے نہ فکر ِدامن

اب تو چبھتی ہے ہوا برف کے میدانوں کی
ان دنوں جسم کے احساس سے جلتا تھا بدن

ایسی سُونی تو کبھی شام ِغریباں بھی نہ تھی
دل بجھے جاتے ہیں اے تیرگیٔ ِصبح ِوطن


No comments:

Post a Comment