جاناں
میں نے اب کے سال بھی سبز رتوں کا پہلا پھول
اک تیری خاطر شاخِ شجر سے توڑ کے
اپنی زرد کتاب میں لا رکھا ہے
کوئی نہ جانے کبھی کوئی آوارہ بھولا بھٹکا بادل
عمر کے ترسے پیاسے دشت کی
پل میں پیاس بجھا جاتا ہے
کوئی نہ جانے
بعض اوقات ایک بھولی بسری ہوئی یاد بھی
ایسے پوری ہو جاتی ہے
جیسے غیر آباد جزیرے
رستہ بھول کے آنے والے لوگوں سے بس جا تے ہیں
No comments:
Post a Comment