Pages

Friday, 21 December 2012

آساں نہیں تھا تجھ سے جدائی کا فیصلہ


چشم شب فراق میں ٹھہری ہے آج تک
وہ ماہتاب عشق کی ساعت عجیب تھی

آساں نہیں تھا تجھ سے جدائی کا فیصلہ
پر مستقل وصال کی وحشت عجیب تھی

لپٹا ہوا تھا ذہن سے اک کاسنی خیال
اترا تو جان و جسم کی رنگت عجیب تھی

اک شہر آرزو سے کسی دشت غم تلک
دل جا چکا تھا اور یہ ہجرت عجیب تھی

ملنے کی آرزو، نہ بچھڑنے کا کچھ ملال
ہم کو اس آدمی سے محبت عجیب تھی

آنکھیں ستارہ ساز تھیں باتیں کرشمہ ساز
اس یار سادہ رو کی طبیعت عجیب تھی

گزرا تھا ایک بار،ہوائے خزاں کے بعد
اور موجہء وصال کی حدّت عجیب تھی

ششدر تھیں سب ذہانتیں اور گنگ سب جواب
اس بے سوال آنکھ کی وحشت عجیب تھی

اس بار دل کو خوب لگا موت کا خیال
اس بار درد ہجر کی شدّت عجیب تھی


No comments:

Post a Comment