Pages

Monday, 17 December 2012

میں تیرا نام لے کے تذبذب میں پڑگئی



ڈسنے لگے ہیں خواب مگر کِس سے بولیے
میں جانتی تھی، پال رہی ہوں سنپولیے

بس یہ ہُوا کہ اُس نے تکلّف سے بات کی
اور ہم نے روتے روتے دوپٹے بھگو لیے

پلکوں پہ کچی نیندوں کا رَس پھیلتا ہو جب
ایسے میں آنکھ دُھوپ کے رُخ کیسے کھولیے

تیری برہنہ پائی کے دُکھ بانٹتے ہُوئے
ہم نے خُود اپنے پاؤں میں کانٹے چھبو لیے

میں تیرا نام لے کے تذبذب میں پڑگئی
سب لوگ اپنے اپنے عزیزوں کو رو لیے

’’خوشبو کہیں نہ جائے‘ ‘یہ اصرار ہے بہت
اوریہ بھی آرزو کہ ذرا زُلف کھولیے

تصویر جب نئی ہے ، نیا کینوس بھی ہے
پھر طشتری میں رنگ پُرانے نہ گھولیے

No comments:

Post a Comment