Pages

Monday, 17 December 2012

کیا کیا نہ خواب ہجر کے موسم میں کھو گئے



کیا کیا نہ خواب ہجر کے موسم میں کھو گئے
ہم جاگتے رہے تھے مگر بخت سو گئے

اُس نے پیام بھیجے تو رستے میں رہ گئے
ہم نے جو خط لکھے تو ہَوا بُرد ہو گئے

مَیں شہرِ گل میں زخم کا چہرہ کسے دکھاؤں
شبنم بدست لوگ تو کانٹے چبھو گئے

آنچل میں پُھول لے کے کہاں جارہی ہُوں مَیں
جو آنے والے لوگ تھے ، وہ لوگ تو گئے

کیا جانیے ، اُفق کے اُدھر کیا طلسم ہے
لَوٹے نہیں زمین پہ ، اِک بار جو گئے

جیسے بدن سے قوسِ قزح پھوٹنے لگی
بارش کے ہاتھ پُھول کے سب زخم دھو گئے

آنکھوں میں دھیرے دھیرے اُتر کے پُرانے غم
پلکوں میں ننھّے ننھّے ستارے پرو گئے

وہ بچپنے کی نیند تو اب خواب ہو گئی
کیا عُمر تھی کہ رات ہُوئی اور سو گئے

کیا دُکھ تھے ، کون جان سکے گا، نگارِ شب 
جو میرے اور تیرے دوپٹّے بھگو گئے

No comments:

Post a Comment