Pages

Friday, 28 December 2012

بھولنے والوں کو آخر کس طرح یاد آؤں مَیں؟



وحشتیں بکھری پڑی ہیں جس طرف بھی جاؤں مَیں
گھوم پھر آیا ہُوں اپنا شہر تیرا گاؤں مَیں

کس کو راس آیا ہے اتنی دیر تک کا جاگنا
وہ جو مل جائے تو اُس کو بھی یہی سمجھاؤٔں مَیں

اب تو آنکھوں میں اُتر آئی ہیں دِل کی وحشتیں
آئینہ دیکھوں تو اپنے آپ سے ڈر جاؤں مَیں

کچھ بتا اے ماتمی راتوں کی دھندلی چاندنی
بھولنے والوں کو آخر کس طرح یاد آؤں مَیں؟

اب کہاں وہ دِل کہ صحرا میں بہلتا ہی نہ تھا
اب تو اپنے گھر کی تنہائی سے بھی گھبراؤں مَیں

یاد کر کے تیرے لوٹ آنے کے وعدوں کی گھڑی
خود کو اِک معصوم بچے کی طرح بہلاؤں مَیں

میرے خوابوں نے تراشا تھا تِرا اُجلا بدن
آ تجھے اب فکر کی پوشاک بھی پہناؤں میں

کس لیے محسن کسی بے مہر کو اپنا کہوں
دِل کے شیشے کو کسی پتّھر سے کیوں ٹکراؤں میں؟

No comments:

Post a Comment