Pages

Sunday, 16 December 2012

میرے سینے میں ترا نام دھڑکتا ہے ابھی


رات گہری ہے مگر چاند چمکتا ہے ابھی
میرے ماتھے پہ ترا پیار دمکتا ہے ابھی

میری سانسوں میں ترا لمس مہکتا ہے ابھی
میرے سینے میں ترا نام دھڑکتا ہے ابھی

زیست کرنے کو مرے پاس بہت کُچھ ہے ابھی
تیری آواز کا جادو ہے ابھی میرے لیے

تیرے ملبوس کی خوشبو ہے ابھی میرے لیے
تیری بانہیں ،ترا پہلو ہے ابھی میرے لیے

سب سے بڑھ کر، مری جاں !تو ہے ابھی میرے لیے
زیست کرنے کو مرے پاس بہت کُچھ ہے ابھی

آج کی شب تو کسی طور گُزر جائے گی
آج کے بعد مگر رنگ وفا کیا ہو گا

عشق حیراں ہے سرِ شہرِ سبا 
کیا ہو گا
میرے قاتل! ترا اندازِ جفا کیا ہو گا

آج کی شب تو بہت کچھ ہے ، مگر کل کے لیے
ایک اندیشہ بے نام ہے اور کچھ بھی نہیں

دیکھنا یہ ہے کہ کل تجھ سے ملاقات کے بعد
رنگِ اُمید کھِلے گا کہ بکھر جائے گا

وقت پرواز کرے گا کہ ٹھہر جائے گا
جیت ہو جائے گی یا کھیل بگڑ جائے گا

خواب کا شہر رہے گا کہ اُجڑ جائے گا


No comments:

Post a Comment