Pages

Monday, 10 December 2012

تُو نے اُس کی آنکھوں کو غور سے پڑھا قاصد












آنگن میں اُترا ہے بام و در کا سناٹا
میرے دل پہ چھایا ہے میرے گھر کا سناٹا

رات کی خموشی تو پھر بھی مہرباں نکلی
کِتنا جان لیوا ہے دوپہر کا سناٹا

صُبح میرے جُوڑے کی ہر کلی سلامت نکلی
گونجتا تھا خوشبو میں رات بھر کا سناٹا

اپنی دوست کو لے کر تم وہاں گئے ہوگے
مجھ کو پوچھتا ہو گا رہگزر کا سناٹا

خط کو چُوم کر اُس نے آنکھ سے لگایا تھا
کُل جواب تھا گویا لمحہ بھر کا سناٹا

تُو نے اُس کی آنکھوں کو غور سے پڑھا قاصد 
کُچھ تو کہہ رہا ہوگا اُس نظر کا سناٹا

No comments:

Post a Comment