فقط اک نظر کے سرور سے ترے رند ایسے بہک گئے
کہ لبوں تک آکے بھرے ہوئے کئی جام رات چھلک گئے
کہ لبوں تک آکے بھرے ہوئے کئی جام رات چھلک گئے
مجھے ضبطِ غم پہ غرور تھا مرے آنسوؤں نے وفا نہ کی
مرے راز پرسشِ حال پرمری چشمِ نم سے ٹپک گئے
ترے نقشِ پا سے اگر ملی مجھے راہِ شوق میں روشنی
تو مری جبینِ سجود سے ترے نقشِ پا بھی چمک گئے
یہ کدھر سے موجِ ہوا چلی کہ مزاجِ وقت بدل گیا
یہ ادھر سے کون گزر گیا کہ فضا میں پھول مہک گئے
مجھے چھوڑ دیں کہ سنبھال لیں مری لاج آپ کے ہاتھ ہے
مجھے اعترافِ شکست ہے مرے پاؤں راہ میں تھک گئے
یہ سفر کا شوق یہ منزلیں تو فقط نصیب کی بات ہے
جو بھٹک رہے تھے پہنچ گئے، جو پہنچ چکے تھے بھٹک گئے
مری بزمِ حسنِ خیال میںوہی میکدہ ہے بسا ہوا
اِدھر آئی یاد وہ زندگی کہ فضا میں جام کھنک گئے۔۔۔
No comments:
Post a Comment