درد بڑھ کر خود دوا ہو جائے تو ہم کیا کریں
چارہ گر ہم سے خفا ہوجائے تو ہم کیا کریں
چارہ گر ہم سے خفا ہوجائے تو ہم کیا کریں
عین ممکن تھا کہ ہم بھی غم سے پاجاتے نجات
دل مگر غم آشنا ہوجائے تو ہم کیا کریں
ہم زباں سے کچھ کہیں تو آپ کا شکوہ بجا
کوئی آنسو لب کشا ہوجائے تو ہم کیا کریں
اپنی جانب سے تو کی ہم نے ہمیشہ احتیاط
پھر بھی بھولے سے خطا ہوجائے تو ہم کیا کریں
ہم سزا کے مستحق ہوتے تو کوئی غم نہ تھا
بے خطا حکمِ سزا ہوجائے تو ہم کیا کریں
ظلم سے ہم ڈر گئے یہ تم سے کس نے کہ دیا
ظلم قانوناً روا ہوجائے تو ہم کیا کریں
معذرت کرنے کو ہم کرلیں مگر کس جرم کی
بے سبب کوئی خفا ہوجائے تو ہم کیا کریں
بے وفا کہ کر تمہیں ہم خود بھی پچھتائے مگر
بےرخی حد سے سِوا ہو جائے تو ہم کیا کریں
شکوہ سنجی کی ہمیں اقبال عادت تو نہیں
زندگی صبر آزما ہو جائے تو ہم کیا کریں۔۔
No comments:
Post a Comment