گماں میں جینے کا اس نے ہنر سکھایا ہے
ہماری ذات سے جس نے یقین پایا ہے

جدائیوں کا کڑا امتحاں تھا منزل پر
اسی لیے کوئی رستے سے لوٹ آیا ہے

ہوا نے ریت سے کچھ نام ہی نہیں چھینے
کسی کے خوابوں کا اک شہر بھی مٹایا ہے

تمہارے وصل کے لمحوں کو چن کے پلکوں نے
فراق رت کو بہت دیر تک سجایا ہے

یہ بات ضد کی نہیں، پوچھ لو پرندوں سے
ہوا پہ کس نے بھلا آشیاں بنایا ہے

بجھا بجھا سا یہ چہرہ، دھواں دھواں آنکھیں
جگر کی راکھ کو ہاتھوں سے کیوں اڑایا ہے؟