Pages

Wednesday, 20 February 2013

جس رت میں وہ بچھڑا تھا


مجبور انا ہو کر
پابند وفا ہو کر
ہم بیٹھ گئے آخر
راضی بہ رضا ہو کر
جس رت میں وہ بچھڑا تھا
اس رت کے تعاقب میں
دل ہے کہ بھٹکتا ہے
راہوں کی ہوا ہو کر
اس جسم کے زنداں میں
اک عمر سے قیدی ہیں
اڑ جائیں گے ہم آخر
اک روز رہا ہو کر
اب تک میرے آنگن میں
پھولوں کا بسیرا ہے
گزرے تھے میرے گھر سے
وہ باد صبا ہو کر
اس درجہ حوادس سے
خائف ہے میری ہستی
ہر لفظ نکلتا ہے
ہونٹوں سے دعا ہو کر۔ ۔ ۔ ۔


No comments:

Post a Comment