مجبور انا ہو کر
پابند وفا ہو کر
ہم بیٹھ گئے آخر
راضی بہ رضا ہو کر
جس رت میں وہ بچھڑا تھا
اس رت کے تعاقب میں
دل ہے کہ بھٹکتا ہے
راہوں کی ہوا ہو کر
اس جسم کے زنداں میں
اک عمر سے قیدی ہیں
اڑ جائیں گے ہم آخر
اک روز رہا ہو کر
اب تک میرے آنگن میں
پھولوں کا بسیرا ہے
گزرے تھے میرے گھر سے
وہ باد صبا ہو کر
اس درجہ حوادس سے
خائف ہے میری ہستی
ہر لفظ نکلتا ہے
ہونٹوں سے دعا ہو کر۔ ۔ ۔ ۔
No comments:
Post a Comment