جھلستے دشت میں لگتا ہے مثلِ سائباں ہے تُو
جو دل کے آئینے میں ہے وہی عکس ِنہاں ہے تُو

بھنور میں ڈوبنے کے بعد یہ مجھ کو سمجھ آیا
تُو ہی قطرہ، تُو ہی ہے موج، بحرِبیکراں ہے تُو

مجھے کم مائیگی کا اِس لئے بھی غم نہیں کوئی
میں اُس دھرتی کی صورت ہوں کہ جس کا آسماں ہے تُو

ہواؤں پر اسے لکھنے میں رسوائی ہے دونوں کی
محبت راز رہنے دے کہ میرا رازداں ہے تُو

مٹادے مسجد و مندر کے جھگڑے، فیصلہ کردے
کہاں پر تُو نہیں تھا اور بتا مجھ کو کہاں ہے تُو