Pages

Thursday, 21 February 2013

شام


اس طرح ہے کہ ہر اک پیڑ کوئی مندر ہے
کوئی اجڑا ہوا، بے نور پرانا مندر
ڈھونڈتا ہے جو خرابی کے بہانے کب سے
چاک ہر بام، ہر اک در کا دمِ آخر ہے
آسماں کوئی پروہت ہے جو ہر بام تلے
جسم پہ راکھ ملے ماتھے پہ سیندور ملے
سرنگوں بیٹھا ہے چپ چاپ نہ جانے کب سے
اس طرح جیسے پسِ پردہ کوئی ساحر ہے
جس نے آفاق پہ پھیلایا ہے یوں سحر کا دام
دامنِ وقت سے پیوست ہے یوں دامنِ شام
اب کبھی شام بجھے گی نہ اندھیرا ہو گا
اب کبھی رات ڈھلے گی نہ سویرا ہو گا

آسماں آس لیے ہے کہ یہ جادو ٹوٹے
چپ کی زنجیر کٹے وقت کا دامن چھوٹے
دے کوئی سنکھ دہائی،کوئی پائل بولے
کوئی بت جاگے، کوئی سانولی گھونگھٹ کھولے


No comments:

Post a Comment