Pages

Thursday, 21 February 2013

تیرے جاتے ہی


تیرے جاتے ہی یہ دل کانٹوں سے بھر جائے گا
بے قراری کسی آری کی طرح
میری اس پھولی ہوئی سانس سے بندھ جائے گی
جو ترے جانے سے بے تال ہوئی

تیرے جاتے ہی ہوا
درد سے جل جائے گی
چھو کے گزرے گی مجھے 
روح پر آبلے مل جائے گی
تیرے جاتے ہی مری تنہائی
پھر سے شریانوں میں بس جائے گی
پھر سے بے چین خیالات کو ڈس جائے گی
جانے یہ ہجر کی ویران سڑک
دور تک کتنے برس جائے گی
تیرے جاتے ہی مری رات، مری بات ، مری ذات
بدل جائے گی
وقت کی گھات بدل جائے گی
جیت اور مات بدل جائے گی
دھوپ ہو جائے گی تبدیل مکمل اور پھر
ساتھ برسات بدل جائے گی


No comments:

Post a Comment