بچپن کے دکھ کتنے اچھے ہوتے تھے
تب تو صرف کھلونے ٹوٹا کرتے تھے
وہ خوشیاں بھی جانے کیسی خوشیاں تھیں
تتلی کے پر نوچ کے اچھلا کرتے تھے
چھوٹے تھے تو مکروفریب بھی چھوٹے تھے
دانہ ڈال کے چڑیوں کو پکڑا کرتے تھے
پاؤں مار کے بارش کے پانی میں
اپنا آپ بھگویا کرتے تھے
اپنے جل جانے کا بھی احساس نہ تھا
جلتے ہوۓ شعلوں کو چھیڑا کرتے تھے
اب تو ایک آنسو بھی رسوا کر دیتا ہے
بچپن میں تو جی بھر کے رویا کرتے تھے
..........................................
بچپن کے دکھ کتنے اچھے ہوتے تھے
تب تو صرف کھلونے ٹوٹا کرتے تھے
وہ خوشیاں بھی جانے کیسی خوشیاں تھیں
تتلی کے پر نوچ کر اُچھلا کرتے تھے
پاؤں مار کر خود بارش کے پانی میں
اپنی ناؤ آپ ڈبویا کرتے تھے
اب سوچیں تو چوٹ سی پڑتی ہے دل پر
آپ بنا کے آپ گھروندے توڑا کرتے تھے
اپنے جل جانے کا بھی احساس نہیں تھا
جلتے ہوئے شعلوں کو چھیڑا کرتے تھے
خوشبو کے اُڑتے ہی کیوں مرجھایا پھول
کتنے بھول پن سے پوچھا کرتے تھے
آج وہی تعبیریں لہو رلاتی ہیں
بچپن میں جو ہم نے سپنے دیکھے تھے
اب تو اک بھی آنسو رسوا کر جاتا ہے
بچپن میں جی بھر کے رو تو لیتے تھے
No comments:
Post a Comment