Wednesday, 6 February 2013

بچپن کے دکھ کتنے اچھے ہوتے تھے


بچپن کے دکھ کتنے اچھے ہوتے تھے

تب تو صرف کھلونے ٹوٹا کرتے تھے


وہ خوشیاں بھی جانے کیسی خوشیاں تھیں


تتلی کے پر نوچ کے اچھلا کرتے تھے



چھوٹے تھے تو مکروفریب بھی چھوٹے تھے


دانہ ڈال کے چڑیوں کو پکڑا کرتے تھے



پا
ؤں مار کے بارش کے پانی میں 


اپنا
 آپ بھگویا کرتے تھے



اپنے جل جانے کا بھی احساس نہ تھا


جلتے ہوۓ شعلوں کو چھیڑا کرتے تھے



اب تو ایک آنسو بھی رسوا کر دیتا ہے


بچپن میں تو جی بھر کے رویا کرتے تھے



..........................................


بچپن کے دکھ کتنے اچھے ہوتے تھے
تب تو صرف کھلونے ٹوٹا کرتے تھے

وہ خوشیاں بھی جانے کیسی خوشیاں تھیں
تتلی کے پر نوچ کر اُچھلا کرتے تھے

پاؤں مار کر خود بارش کے پانی میں
اپنی ناؤ آپ ڈبویا کرتے تھے

اب سوچیں تو چوٹ سی پڑتی ہے دل پر
آپ بنا کے آپ گھروندے توڑا کرتے تھے

اپنے جل جانے کا بھی احساس نہیں تھا
جلتے ہوئے شعلوں کو چھیڑا کرتے تھے

خوشبو کے اُڑتے ہی کیوں مرجھایا پھول
کتنے بھول پن سے پوچھا کرتے تھے

آج وہی تعبیریں لہو رلاتی ہیں
بچپن میں جو ہم نے سپنے دیکھے تھے

اب تو اک بھی آنسو رسوا کر جاتا ہے
بچپن میں جی بھر کے رو تو لیتے تھے



No comments:

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets