Pages

Wednesday, 20 February 2013

اے دور نگر کے بنجارے کیوں آج سفر کی ٹھانی ہے


اے دور نگر کے بنجارے کیوں آج سفر کی ٹھانی ہے
یہ بارش ،کیچڑ ، سرد ہوا ا ور راہ کٹھن انجانی ہے

آمحفل چپ چپ بیٹھی ہے آ محفل کا جی شاد کریں
وہ لوگ کہ تیرے عاشق ہیں کے روزسے تجھ کو یاد کریں

وہ ٹھور ٹھکانے ڈھونڈ چکے ، وہ منزل منزل چھو آئے
اب آ س لگائے بیٹھے ہیں کب دستک ہو کب تو آئے

اے دور نگر کے بنجارے گر چھوڑ کے ایسا جا نا تھا
کیوں چاہ کی راہ دکھانی تھی کیو ں ُپیار کا ہاتھ بڑھانا تھا

ہے دنیا کے ہنگاموں میں رنگینی بھی رعنائی بھی
ہر چیز یہا ں کی پیاری ہے محرومی بھی رسوائی بھی

سب لوگ یہا ں پر قسمت کے بے طور تھپیڑے سنتے ہیں
پر جیتے ہیں ا ور جینے کی آ س سے چمٹتے رہتے ہیں

ا ور تو تو ایک کھلاڑی تھا کیوں کھیل ہی سے منہ موڑ لیا
کیوں جان کی بازی ہار گیا کیوں عمر کا رشتہ توڑ لیا

گو جانے کے مشتاق یہا ں سے ہمم جیسے لاکھ بچارے ہوں
وہ لوگ ہی رخصت ہوتے ہیں جو لوگ کہ سب کو پیارے ہوں

ہر سال رتوں کی گردش سے جب بیس دسمبر آئے گی
یہ اشک چھما چھم برسیں گے ، یہ آہ گھٹا بن جائے گی

تم عر ش کے ایک فرشتے تھے بس فرش کی چوکھٹ چوم گئے
تم تیس برس تک دنیا میں معصوم رہے معصوم گئے

ہم یاد کی روشن شمعوں سے اس جی میں اجالا رکھیں گے
ا ور سینے میں آبادی کا سامان نرالا رکھیں گے

تم اجنبی اجنبی راہوں میں جب تھک جاؤ اک کاممکرو
اس دل میں آن قیام کرو اس سینے میں بسرام کرو

اس جگ کی رات اندھیری میں اک تارا تھا وہ ڈوب گیا
ا ور وعدے ساتھ نبھانے کے سب بھول بھلا کر خوب گیا

یہ انشا ہاروں ، زید بکر ،شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں
سب دوست ہمارے اچھے ہیں پر کون ہے اس ساکوئی نہیں

کیوں نازک نازک سینوں ہر تم غم کا توڑ پہا ڑ چلے
پھر دیکھ زمیں پر کیچڑ ہے پھر دیکھ فلک پر پانی ہر

اے دور نگر کے بنجارے کیوں آج سفر ٹھانی ہے


No comments:

Post a Comment