Pages

Monday, 15 April 2013

یاد میری بھی پڑی رہتی ہے تکیے کے تلے


صبح کے روپ میں جب دیکھنے جاتی ہوں اسے 
شیشے کی ایک کرن بن کے جگاتی ہوں اسے 

بال کھولے ہوئے پھرتی ہوں کسی خواب کے ساتھ 
شام کو روز ہی روتی ہوں، رلاتی ہوں اسے 

یاد میری بھی پڑی رہتی ہے تکیے کے تلے 
آخری خط کی طرح روز جلاتی ہوں اسے 

راہ میں اس کی بچھا دیتی ہوں ٹوٹی چوڑی 
چبھ کے کانٹے کی طرح روز ستاتی ہوں اسی 

بھولے بسرے کسی لمحے کی مہکتی خوشبو 
گوندھ کر اپنے پراندے میں جھلاتی ہوں اسے 


No comments:

Post a Comment