Pages

Monday, 15 April 2013

موسم ہے چشمِ تر کا سہانا بنا ہوا


بے روح لڑکیوں کا ٹھکانہ بنا ہوا 
کمرہ ہے میرا آئینہ خانہ بنا ہوا 

میں نےتو کوئی بات کسی سے نہیں کہی 
سوچا ہے جو وہی ہے فسانہ بنا ہوا 

ندیا میں کس نے رکھ دیئے جلتے ہوئے چراغ 
موسم ہے چشمِ تر کا سہانا بنا ہوا 

عورت کا ذہن مرد کی اس کائنات میں 
اب تک ہے الجھنوں کا نشانہ بنا ہوا 

ممکن ہے مار دے مجھے اس کی کوئی خبر 
دشمن ہے جس کا میرا گھرانہ بنا ہوا 

بارش کی آگ ہے مرے اندر لگی ہوئی 
بادل ہے آنسوؤں کا بہانہ بنا ہوا 

نیناں کئی برس سے ہوا کی ہوں ہم نفس 
ہے یہ بدن اُسی کا خزانہ بنا ہوا 


No comments:

Post a Comment