Pages

Tuesday, 16 April 2013

تمہارے شہر کا موسم


تمہارے شہر کا موسم بڑا سہانا لگے
میں اک شام چرا لوں اگر برا نہ لگے

جو ڈوبنا ہے تو اتنے سکون سے ڈوبو
کہ آس پاس کی لہروں کو بھی پتہ نہ چلے 

تمہارے بس میں اگر ہو تو بھول جاؤ ہمیں 
تمہیں بھلانے میں ہمیں شاید زمانہ لگے 

نہ جانے کیا ہے کسی کی اداس آنکھوں میں 
وہ منہ چھپا کے بھی جائے تو بے وفا نہ لگے 

ہمارے پیار سے جلنے لگی ہے اک دنیا 
دعا کرو کسی دشمن کی بدعا نہ لگے

اسی لئے تو کھلائے ہیں پھُول صفحوں پر
ہمیں جو زخم لگے ہیں وہ دوستانہ لگے


وہ اِک ستارہ کہ جو راستہ دِکھائے ہمیں
وہ اِک اشارہ کہ جو حرف محرمانہ لگے

کچھ اس ادا سے میرے ساتھ بےوفائی کر کہ
تیرے بعد مجھے کوئی بےوفا نہ لگے 

وہ پھول جو میرے دامن سے ہوگئے منسوب 
خدا کرے انہیں بازار کی ہوا نہ لگے 


نہ جانے کب سے کوئی میرے ساتھ ہے قیصر
جو اجنبی نہ لگے اور آشنا نہ لگے‬

تم آنکھ موند کے پی جاؤ زندگی قیصر 
کہ ایک گھونٹ میں شاید یہ بدمزا نہ لگے

No comments:

Post a Comment