Pages

Sunday, 14 April 2013

اب تک ٹپک رہا ہے لہو دل کے جام سے


کاٹی ہے غم کی رات بڑے احترام سے
اکثر بجھا لیا ہے چراغوں کو شام سے

روشن ہے اپنی بزم اور اس اہتمام سے
کچھ دل بھی جل رہے ہیں چراغوں کے نام سے

مدّت ہوئی ہے خون ِتمنا کئے مگر
اب تک ٹپک رہا ہے لہو دل کے جام سے

صبح ِبہار ہم کو بلاتی رہی مگر
ہم کھیلتے رہے کسی زلفوں کی شام سے

ہر سانس پر ہے موت کا پہرا لگا ہوا
آہستہ اے حیات گزر اس مقام سے

کاٹی تمام عمر فریبِ بہار میں
کانٹے سمیٹتے رہے پھولوں کے نام سے

یہ اور بات ہے کہ علی ہم نہ سن سکے
آواز اس نے دی ہے ہمیں ہر مقام سے


No comments:

Post a Comment