Pages

Sunday, 14 April 2013

چاہت کے جزیروں سے تری خواب گلی تک


وہ لوگ جو پیوست رگ  خاک رہے ہیں
سوچو تو وہی حاصل ادراک رہے ہیں

آنکھوں کو ہے بیدار صلیبوں کی چبھن رآس
کہ خواب سفر وصل کے سفاک رہے ہیں

قطروں میں تراشےہیں کئی گونجتے دریا
ہم اپنے ہنر میں کبھی بیباک رہے ہیں

کچھ اپنا مسیحا بھی تھا نوخیز، پھر اپنے
کچھ درد بھی ہم قامت  افلاک رہے ہیں

چاہت کے جزیروں سے تری خواب گلی تک
دل لےکے گریباں کی طرح چاک رہے ہیں

اطراف میں اجڑے ہوئے منظر کی خلش سے
آنکھوں میں بچھے صحرا بھی نمناک رہے ہیں

ہجرت کی ہواؤں پہ سفر زیست تھی فرخ
بکھرے ہوئے ہم صورت  خاشاک رہے ہیں


No comments:

Post a Comment